خاور اعجاز ۔۔۔ بوتے ہیں خواب میں دن، اوِر رات کاٹتے ہیں

بوتے ہیں خواب میں دن، اوِر رات کاٹتے ہیں
ہم اپنی جاں پہ کیا کیا آفات کاٹتے ہیں

لطفِ سخن ہی اُن سے باقی نہیں رہا اَب
ہم بات جوڑتے ہیں وہ بات کاٹتے ہیں

کیا پوچھتے ہو ہم سے کیا لکھ رہے ہیں ، لیکن
اِتنی خبر ہے جس پر یاں ہات کاٹتے ہیں

اے آسماں تجھے کچھ معلوم ہے حقیقت
ہم کس طرح سے اپنے اوقات کاٹتے ہیں

تھم جائے گا بالآخر یہ زورِ گریہ خاورؔ
چلیے اِک اور غم کی برسات کاٹتے ہیں

Related posts

Leave a Comment